
WHY PMLN BEHIND THESE CASES?
talha
- 0
1991
میں وینا حیات نامی خاتون نے الزام لگایا کہ صدر غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت نے پانچ افراد کے ذریعے
اس کا گینگ ریپ کروایا کیونکہ وہ بینظیر کی قریبی دوست تھی۔
عرفان اللہ مروت اس وقت نوازشریف کی جماعت میں تھا، چنانچہ وزیراعظم نوازشریف نے ایک کمیٹی بنائی جس نے عرفان اللہ مروت کو کلین چٹ دے دی۔ حکومت نے کہا کہ کوئی ریپ نہیں ہوا۔
2005
میں بلوچ ڈاکٹر شازیہ خالد نے ایک فوجی کیپٹن پر ریپ کا الزام لگایا، صدر اور آرمی چیف مشرف نے ٹی وی پر کلمہ پڑھ کر کہہ دیا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ نہ تو کوئی تفتیش، نہ انکوائری ۔ ۔ ۔الٹا ڈاکٹر شازیہ خالد پر ادارے کو بدنام کرنے کا پرچہ کاٹ دیا گیا۔ وہ بیچاری بڑی مشکل سے جان بچا کر ملک سے باہر چلی گئی۔
اس وقت بھی حکومت نے یہی کہا کہ کوئی ریپ نہیں ہوا۔
2017
میں قصور میں سینکڑوں معصوم بچوں کے ساتھ ریپ کی پورن موویز بنا کر ڈارک ویب پر بیچنے کا انکشاف ہوا۔ ملزم ن لیگی رکن اسمبلی تھا۔ پنجاب حکومت نے انکوائری کمیٹی بنائی اور رانا ثنااللہ نے پریس کانفرنس کرکے کہہ دیا کہ کوئی ریپ نہیں ہوا۔
آج ایک دفعہ پھر ایک معصوم بچی کے ریپ کا ایشو کھڑا ہوا ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ اس دفعہ بھی حکومت ن لیگ کی ہی ہے۔
آج جعلی وزیراعلی مریم صفدر بھی یہی کہہ رہی ہے کہ کوئی ریپ نہیں ہوا۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ اس ملک میں ہمیشہ ن لیگ ہی مل کر ریپ کرتے آئے ہیں۔ عوام کا ریپ، اداروں کا ریپ، ملکی خزانے کا ریپ، جوڈیشری کا ریپ، الیکشن کمیشن کا ریپ، نیب کا ریپ، پولیس کا ریپ، معصوم بچوں کا ریپ، خواتین کا ریپ ۔